Friday, August 5, 2016

خونی رشتے, چدائی



ابا جان شہر میں رہتےتھے اور ہفتے میں صرف دو دن گاؤں ہمارے پاس آتے تھے ، یہاں گاؤں میں ہمارے کافی کھیت ہیں جو کے گھر سے بالکل ہی ملتے ہیں ، میری عمر صرف 16 سال ہے ، گاؤں کی خالص غذا اور آب و ہوا نے مجھے ورزشی جسم اور چمکتا ہو رنگ دیا ہے جو دیکھنے والوں کو مرعوب کر دیتا تھا ۔ہمارے گھر میں امی ، چچا جان اور ان کی بیوی ، میری دو چھوٹی بہنیں اوربڑے بھائی کی بیوی رہتی ہیں ۔ بڑے بھائی تعلیم کے لئے شہر میں ہاسٹل میں رہتے تھے ، ان کی شادی چچا کی بیٹی سے ہی ہوئی تھی۔ہمارے گھرانے میں آپس میں ہنسی مذاق اور انڈراسٹینڈنگ بہت ہی اچھی تھی ، ہر کوئی مذاق مستی کے ماحول میں رہتا تھا ۔۔ مجھے بچپن سے ہی ورزش کا شوق تھا ، میں روزانہ رات کو تیل سے مالش کر کے ایسے ہی سو جاتا تھا اور صبح اٹھ کر دوڑ لگاتا اور پھر واپس آ کر نہا کر ناشتہ کرتا تھا ، ناشتہ چچی جان بنایا کرتی تھیں ، اور بھابھی دوپہر کا کھانا ، جبکہ میری دونوں بہنیں رات کا کھانا بناتی تھی ، 
دن ایسے ہی گزررہے تھے ، میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی اور کالج کی تعلیم کے لئے شہر آ گیا ، یہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ جوانی کیا چیز ہوتی ہے ، گاؤں میں ہر چیز پاک صاف تھی ، کوئی گندہ خیال ذہن میں نہیں آتا جبکہ ہمارا گاؤں کے دوسرے گھروں میں بھی آنا جانا نہیں تھا ، یہاں شہر میں تو ہر طرف ہر لڑکا لڑکی کو ایسے گھورتا جیسے وہ اس کی اپنی ملکیت ہو ، میری بد قسمتی کے مجھے بھی کچھ ایسے ہی دوست ملے جو کہ سیکس کے بھوکے تھے اور ہفتے میں اک بار کسی لڑکی کی چدائی کرتے تھے ، انہوں نے مجھے بھی ساتھ شامل کرنا چاہو مگر ابھی میرا ٹائم نہیں آیا تھا ، اس لئے میں بچتا رہا ۔ اسی دوران مجھے انٹرنیٹ کی دنیا کی لت پڑی ،جہاں مختلف پورن ویب سائیٹس دیکھنے میں گزرتی تھیں اور انہیں نے مجھے آہستہ آہستہ پورنوگرافی کا عادی بنانا شروع کر دیا ۔یہ پورنوگرافی میں مزے لینے کے بجائے ایک تجربے کے طور پر دیکھ رہا تھا،اور انہوں نے مجھے لڑکیوں کو الگ رخ سے روشناس کروایا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کی مجھے باہر کی کسی بھی لڑکی سے عجیب سے شرم محسوس ہوتی تھی ، وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی بھی تو مجھ سے ہو نہیں پاتی تھی ، لڑکی کے قریب جاتے ہیں عجیب سا رعب مجھ پر طاری ہو جاتا تھا ، ۔ میں کالج میں رہتے ہوئے سب سے شریف لڑکا تھا ، اس اثنا میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئی اور میں اپنے بھیا کے ساتھ گاؤں واپس آگیا ، راستے میں بھیا مجھ سے مذاق کرتے رہے اور پوچھا کہ کوئی گرل فرینڈ بنائی یا نہیں ، میں نے کہا بھائی آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تو شریف ہے مگر شہر کی لڑکیا ں تو شریف نہیں ، کیا کوئی بھی پسند نہیں آئی ۔ پھر میں نے بھائی کو اپنا ڈر بتا دیا کہ میں لڑکیوں کے قریب جانے سے جھجکتا ہوں ۔ آپ کچھ حل بتائیں ۔ بھائی نے کہا کہ جب واپس شہر آئیں گے تو میں اپنی کچھ دوستوں سے ملواؤں گا وہی تیری شرم دور کریں گے ۔ ایسے ہی باتیں کرتے ہم گھر پہنچے ، سب لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ۔ کھانے کی ٹیبل پر ہنسی مذاق ہوتا رہا ۔ ہم تھکے ہارے تھےاسی لئے جلد ہی سونے کے لئے لیٹ گئے ۔
رات کو قریب دو بجے میری آنکھ کھلی اور میں پانی پینے نیچے کچن میں آنے لگا ۔ گھر کی سیٹنگ کچھ یوں ہے کہ میں بھائی بھابھی اور چچا چچی کا کمرہ اوپر فرسٹ فلور پر ہے ، جبکہ نیچے والے فلور پر امی ، بہنیں اور کچن بناہے ۔
اوپر بھائی کے کمرے کے سامنے سے گذرتے ہوئے مجھے عجیب سی آوازیں سنائی دینے لگی۔۔۔ سرگوشیوں میں باتیں اور ہنسی مذاق کی آوازیں ۔۔ میں سمجھ تو گیا تھا مگر پھر بھی کوشش کر کے دروازے کی جھر ی سے جھانکنے لگا۔۔ اندر جھانکا تو دیکھا کہ بھیا بیڈ سے ٹیک لگائے لیٹے ہوئے ہیں (بیڈ دروازے کے بالکل سامنے ہی تھا) اور بھابھی ان کی طرف منہ کر کے ان کی ٹانگوں پر بیٹھی ہوئی ہیں ، دونوں فل ننگے تھے ، اور بھیابھابھی کی چھاتیوں کو مسل رہے تھے ،اور بھابھی کے دونوں ہاتھ بھیا کے سر پر گھوم رہے تھے وہ آہستہ آہستہ بھیا کے بالوں کو کھینچ رہیں تھی ۔ بھیا بھابھی کے ننگے مموں کو گول گول مسل رہے تھے ، بھابھی کی پتلی کمر اور نیچے بھاری بھرکم گانڈ دیکھ کر میری حالت خراب ہو گئی تھی ، میری جو حالت پورن موویز دیکھ کر نہیں ہوئی تھی ، وہ بھابھی کوننگا دیکھ کر خراب ہو چکی تھی ، میرا لنڈ پوری جوش سے کھڑا ہو چکا تھا ۔ اور میں بالکل مست ان دونوں کے دیکھے جا رہا تھا ۔ رات کافی تھی ، کسی کے آنے کی امید نہیں تھی اس لئے بھیا بھابھی بھی پورے مست تھے اور میں نے بھی اپنا ٹراؤزر نیچے کھسکا دیا تھا ۔بھابھی ابھی بھیا کے اوپر جھک چکی تھی اور ان کے ہونٹوں کو چوم رہیں تھیں ۔ ان کے چومنے کا انداز بڑا عجیب تھا ، آگے کو جھکی ہوئی اور پیچھے سے اپنی گانڈ کوگول گول گھماتے ہوئے۔یہ دیکھ کر میرے خون کی گردش بہت بڑھ چکی تھی 



میری جو حالت پورن موویز دیکھ کر نہیں ہوئی تھی ، وہ بھابھی کوننگا دیکھ کر خراب ہو چکی تھی ، میرا لنڈ پوری جوش سے کھڑا ہو چکا تھا ۔ اور میں بالکل مست ان دونوں کے دیکھے جا رہا تھا ۔ رات کافی تھی ، کسی کے آنے کی امید نہیں تھی اس لئے بھیا بھابھی بھی پورے مست تھے اور میں نے بھی اپنا ٹراؤزر نیچے کھسکا دیا تھا ۔بھابھی ابھی بھیا کے اوپر جھک چکی تھی اور ان کے ہونٹوں کو چوم رہیں تھیں ۔ ان کے چومنے کا انداز بڑا عجیب تھا ، آگے کو جھکی ہوئی اور پیچھے سے اپنی گانڈ کوگول گول گھماتے ہوئے۔یہ دیکھ کر میرے خون کی گردش بہت بڑھ چکی تھی ،بھابھی اب اپنی زبان بھیا کے منہ میں ڈال رہی تھیں اور وہ اسے بڑے مزے سے چوس رہے تھے ۔بھابھی کا گندمی رنگ ٹیوب لائیٹ کی روشنی میں چمک رہا تھا۔اور ان کے لمبے بال جیسے کمر پر گرے ہوئے تھے وہ کسی کو بھی پاگل بنانے کے لئے کافی تھے ۔ بھابھی اب تھوڑا نیچے کی طرف ہوئیں اور بھائی کا لنڈ جو کہ نیم کھڑا تھا اسے سہلانے لگی ۔ اور پھر تھوڑی دیر میں اسے منہ میں ڈال کر چوسنے لگی ۔ بھائی کا لنڈ 7 انچ لمبا تھا جو کہ 
جلد ہی اپنی اصل لمبائی میں آگیا ۔ کچھ ہی دیر گذری تھی کہ بھابھی نے اپنا سر اٹھایا اوراوپر کی طرف آ کر بھائی کے ہونٹوں کو چومنے لگیں ،اسی طرح چومتے چومتے وہ اپنے دونوں اپنےمموں کو مسل رہیں تھیں اور انہیں بھیا کے سینے پر رگڑ رہی تھیں۔دس منٹ گزرے ہی تھےکہ پھر اچانک انہوں نے دروازے کی طرف منہ کر لیا میں تو سمجھا شاید انہیں میرا پتا چل گیا ہے ، مگراب ان کا ارادہ گھوڑے کی سواری کا تھا ، انہیں نے دروازے کی طرف منہ کر لنڈ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور آہستگی سے اسے اپنی چوت کی سیدھ میں رکھ کر آرام سے بیٹھنے لگی ۔ اور یہی وقت تھا کہ جب میں نے ان کے سینے کا ابھاروں کو دیکھا ان کے لمبے کالے بال دونوں ابھاروں پر گرے ہوئے تھے ، ۔ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ان کے ابھار جو کے سخت اور گول مٹول سے ٹیبل ٹینس کی بال کی طرح تھے ۔ بھابھی کے چہرے پر بہت ہی لذت آمیز تاثرات تھے اور صاف پتا چلتا تھا کہ وہ بہت مزے میں ہیں ۔ بھابھی نے بھیا کا لنڈ ایک بار پورا اندر لینے کے بعد اب آرام آرام سے اوپر نیچے ہونا شروع کردیا تھا ، بھیا کے ہاتھ اب بھابھی کی گانڈ کی سائیڈز پر تھے اور وہ انہیں اوپر نیچے ہونے میں مدد کر رہے تھے ۔ بھابھی کے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ممے بھی اوپر کی طرف باؤنس ہورہے تھے ۔ میرا ہاتھ اپنے لنڈ پر آگے پیچھےحرکت کررہا تھا ، میں نے کبھی پورن مووی دیکھ کر مٹھ نہیں ماری تھی ، مگر آج بھابھی کو ایسے دیکھ کر میں بے خود ہو گیا ۔ میرے آس پاس ہر چیز سلو موشن میں حرکت کر رہی تھی۔اور عجیب خوابیدہ ماحول کے اثر تھا ۔۔بھابھی نے ابھی اچھلتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے مموں کو مسلنا شروع کر دیا تھا ، اور ان کی سسکیاں اور آہیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔۔۔بھائی بھی اپنے ہاتھوں سے بھابھی کی گانڈ کو دبوچ رہے تھے اور اوپر اٹھنے میں مدد دے رہے تھے ،اسی طرح 5 منٹ ہو چکے تھے ، میری آنکھیں بھاری ہوتی جارہی تھیں اور میں کسی خواب کے زیر اثر لگ رہا تھا ۔۔۔ بھابھی کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی منزل قریب ہی ہے ۔ ان کی آوازیں اب تیز ہوتی جا رہیں تھیں ۔ اور بھائی بھی اب نیچے سے جھٹکے دینا شروع کر رہے تھے

کئی بار تو بھابھی کافی اوپر اچھل جاتیں تھیں اور پھر نیچے آتیں ۔بھابی اور تیز ہوتی گئیں اور اونچی سسکیوں اور آہوں کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی ۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہیں اور پھر آہستہ سے اٹھیں اور بھیا سے لپٹ گئیں ۔ وہ بہت جذباتیت سے ان کے منہ کو چوم رہیں تھیں اوران کے سینے پر ہاتھ پھیر رہیں تھیں ۔ بھائی کا لنڈ ابھی بھی کھڑا تھا وہ بھابھی کے ساتھ فارغ نہیں ہوئی تھے۔ بھابھی کی کمر پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے جو کہ ان کی گرمی اور محنت کا ثبوت تھے۔ بھابھی ابھی بھی گرم لگی رہیں تھیں وہ بہت تیزی سے بھیا کے چہرے اور ہونٹوں کو چوم رہیں تھیں ۔ کچھ ہی دیر میں بھابھی دوبارہ گرم ہو چکی تھیں ۔ وہ اٹھیں اور دوبارہ سے دروازے کی طرف منہ کر کے گھوڑی بن گئیں اور بھیا کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔ بھیا بھی اٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھے اور اپنے تنے ہوئے لنڈ کو سہلانے لگے ۔ ان کا لنڈ جلد ہی پھنکاریں مارنے لگا تھا ۔ وہ آگے کو جھکے اور بھابھی کی کمر کو چومتے ہوئے گردن کی طرف آنے لگے۔بھابھی نے نیچے سے ہاتھ بڑھایا اور بھیا کا لنڈ تھام لیا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں تھک چکی تھیں اب میں بھی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دوبارہ نظریں جما لی تھیں ۔بھابھی نے بھائی کا لنڈ تھام کر اسے اپنی چوت کو راستہ دکھا دیا تھا ۔ بھیا کا پہلا جھٹکا ہیں بھابھی کو ہلانے کے لئے کافی تھی ۔ وہ آگے کو جھکیں ان کے ممے تیزی سے اوپر نیچے ہوئے اور پھر بھیا نے دھکوں کا ایک طوفان چلا دیا تھا ۔ بھابھی اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنی پوزیشن پر قائم نہیں رہ پا رہی تھی ، ان کی سسکیا ں تو اوپر کی پوری منزل پر ہی گونج رہیں تھیں ۔ان کے ممے تیزی سے ہل رہے تھے جیسے کسی کپڑے کی تھیلی میں گیند ڈال کر تیزی سے ہلایا جائے ۔بھیا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے بھابھی کی من مانیوں کا بدلا لے رہیں ہیں ۔۔۔ بھابھی کئی بار آگے کو گرتیں اور پھر دوبارہ گھوڑی بنتیں ، ان کی سسکیاں اب بڑھ کر ہلکی چیخوں اور آہو ں میں تبدیل ہو چکی تھیں ۔ بھیا نے اب آگے جھک کر بھابھی کے دونوں مموں کو تھام لیا ، اور اب بھابھی کے لئے ایک اور امتحان تھا کیوں کی بھیا کی مموں پر پکڑ بہت ہی سخت تھی اور وہ بھابھی کے ساتھ آگے پیچھے نہیں ہو پارہے تھے ، جس سے ممے اور کھینچتے اور بھابھی کو اور درد ہو رہی تھیں ۔۔بھیا کو اس بری طرح سے چودتے ہوئے بلکہ بھابھی کی بجاتے ہوئے اورپانچ منٹ ہو چکے تھے۔ بھابھی نے بھی ابھی اپنا سر بیڈ پر ڈال دیا تھا اور پیچھے سے گانڈ اوپراٹھا دی تھی۔ان کے ہاتھ بیڈ کی چادر کو بھینچ رہے تھے 

جیسے وہ اپنا غصہ اس پر اتار رہیں ہوں ۔۔۔۔بھیا بھی اب فارغ ہونے کے قریب ہی تھے ایک تیز آواز کے کی ساتھ ہی وہ بھابھی پر گرے ، یہی وقت تھا کہ میرے لنڈ سے ایک فوارہ نکلا جو کہ سیدھا دروازے پر جا گرا ۔ میرے پورے بدن پر ایک میٹھی سی کیفیت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی میں دروازے کھلنے کی آواز سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نے انتہائی تیزی سے اپنے بائیں جانب دیکھا تو چچی جان اپنے کمرے کے باہر کھڑی مجھے حیرت سے دیکھ رہیں تھی ، مجھ میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔اندر آ کر پہلے تو میں سوچتا ہی رہا کہ یہ مجھ سے کیا ہوا ہے ۔ ایک تو بھیا کو دیکھنا اور پھر چاچی کا مجھے دیکھ لینا ۔۔۔ خود پر حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیا کر دیا ہے میں نے ۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی بستر پر لیٹے سوچتا رہا۔ پھر یہی ٹھیک لگا کہ صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اپنے پرانا معمول یاد آیا تو سرسوں کا تیل اٹھا کر نیچے چادر بچھا کر بیٹھا اور مالش شروع کر دی۔۔پورے بدن کی مالش کرتے ہوئے اب میں اپنے لنڈ کو خصوصی توجہ دے رہا تھا ۔ اور مجھے حیرانگی بھی ہو رہی تھی کہ میرا لنڈ اپنے بڑے بھائی سے کافی بڑا تھا ، شاید بچپن سے کی گئی مالش کا اثر تھا ۔۔۔ میں نے کوئی ایک گھنٹہ لگایا اور پورے بدن کی نرمی اور سختی سے مالش کی اور وہی چادر اپنے بیڈ پر بچھا کر لیٹ گیا ۔بیڈ پر لیٹتے ہیں دوبارہ سے بھابھی میرے سامنے آگئیں ، ان کی وہ دونوں پوزیشن مجھے یاد آرہی تھیں ان کا گندمی بدن ،اور گول گول ممے ، پتلی کمر اور پیچھے کو نکلی ہوئی گانڈ ، اور بھری بھری رانیں مجھے پھر سے گرم کر رہیں تھی ۔ان کا گھوڑی بننے کا انداز مجھے کبھی نہیں بھول سکتا تھا ۔ ان کے جھولتے ہوئے چھوٹے سنگترے نما ممے ۔ کمر پر بکھر ے ان کے کالے بال ۔۔۔اور جان لٹا دینے والے ان کے چہرے کے تاثرات۔۔میں خود کو بھابھی کے پیچھے بیٹھا دھکا دیتے سوچتے ہوئے میں نیند کی وادیوں میں گرتا چلا گیا ۔۔صبح دیر سے آنکھ کھلی ، جلدی سے نہا کر نیچے اترا تو سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے ۔۔۔میری ڈائننگ ٹیبل پر نظر پڑی تو چچی جان کو وہاں بیٹھے دیکھ کرمیری نظریں نیچے جھک گئی اور میں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ بھابھی ابھی تک نہیں آئیں تھیں شاید رات کی تھکان اب تک نہیں اتری تھی۔۔۔بھیا ویسے ہی ہنستے مسکراتے ہوئے سب سے حال چال پوچھ رہے تھے ۔۔چچی جان مجھے دیکھ کر مسکرا رہیں تھیں اور میری حالت خراب ہورہی تھی

امی سے کہنے لگیں کہ دیکھیں یہ شہر جاکر کتنا کمزور ہو گیا ہے لگتا ہے اپنے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتا ۔۔اور یہ کہ کر میری پلیٹ میں کھانا ڈالنے لگیں۔۔۔میری بہنیں میں مجھے چڑانے لگیں تھیں کہ اب ان کی شادی کر دیں تاکہ کوئی خیال کرنے والی آجائے ۔۔ ناشتہ کے بعدچاچا تو کھیتوں کی طرف جانے لگے اور کہا کہااگر دل کرے تو چکر لگا لینا۔۔۔ اپنی زمینیں بھی دیکھ لو ۔۔۔تھوڑی دیر میں ہی چاچی چائے لے آئیں اور مجھے پکڑاتے ہوئے میرے ہاتھ کو ٹچ کیا۔ٹچ کیا تھا کہ میرے پورے بدن میں سنسنی سے پھیل رہیں تھی ۔۔۔ چاچی بہانے بہانے سے مجھے تنگ کر رہیں تھیں ۔ میں نے جلدی سے چائے ختم کی اور اپنے کھیتوں کی طرف چلا گیا ، وہاں پرانے دوست بھی آئے ہوئے تھے ، ان کا ساتھ اچھا ٹائم پاس ہو گیا ، دوپہر کا کھانا باہر کھایا اور شا م کو گھر آیا ۔ بھابھی اب نظر آرہی تھیں ، ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہیں تھیں کہ وہ بہت خوش ہیں ۔۔۔ بھیا بھی اپنے دوستوں کی طرف گئے ہوئے تھے ، وہ بھی واپس آئے اور شام کا کھانا ہم نے ساتھ کھایا ۔ اس کے بعد امی اور بہنوں سے کچھ باتیں کی اور پھر سونے کے لئے اوپر آ گیا ۔۔۔
کھانا کھائے ہوئے مجھے تین گھنٹے ہو چکے تھے تو میں نے اپنا معمول شروع کر دیا ۔۔ مالش کر کے بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔ بھابھی کا آج پورا بدن میری نگاہوں میں پھرتا رہا تھا ،بے شک وہ کپڑوں میں بے حد حسین لگتی تھیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس نظر سے انہیں دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔
اور اسی طرح سوچتے ہوئے مجھے چاچی کی حرکتیں بھی یاد آگئیں ، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں ، ان کی بے باک نگاہیں اور بہانے بہانے سے ٹچ کرنا کچھ اور ہی اشارہ کر رہا تھا۔ مجھے کچھ عجیب ہی لگ رہا تھا ، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھی، وہ ان عورتوں میں سے تھیں جو عمر کے ساتھ ساتھ اور خوبصورت ہوتی جاتیں ہیں ۔ ان کا لمبا قد ، گورا رنگ ، ہلکےسرخی مائل بال ، اوربہت ہی گول اور باہر کو نکلے ہوئی پستان جوکہ قمیض سے باہر آنے کو زور لگاتےنظر آتے تھے ، اور اس کے ساتھ ہی چوڑی کمر اور اس پر پیچھے کو نکلی ہو گول گانڈ جو کہ چلتے ہوئے دعوت دیتی ہوں
یہ سب سوچ کر میں دوبارہ گرم ہوتا جا رہا تھا ۔میں نے بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کیا اور لائٹ بند کر کے سونے لیٹ گیا ۔
سوتے ہوئے بھی مجھے خواب میں بھابھی ہی نظرآرہیں تھیں ، اور مجھے ایسے لگا رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہی لیٹی ہیں او ر بھیا کی طرح مجھے بھی چوم اور میرے ہونٹ چوس رہیں ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں ہاتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا اسی اثنا ء میں مجھے لگا کہ میرا ہاتھ کسی سے ٹچ ہوا ہے ۔۔ میری آنکھ کھلی تو اندھیر ے میں کوئی بدن میرے ساتھ ہی تھا۔ اور مجھے چوم رہا تھا ۔ جبکہ اس کا ہاتھ میری ٹانگوں اور پورے بدن پر آہستہ آہستہ پھر رہا تھا۔پہلے تو مجھے سمجھ ہیں نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا ہے ، خواب ہے یا حقیقت ۔۔۔ میرا حلق خشک ہو چکا تھا ۔۔۔ اور دونوں ہاتھ سن لگ رہے تھے ۔۔۔پھر آہستہ آہستہ اس ہاتھ کی گرمی میرے جسم پر اثر انداز ہونے لگی۔۔اس کے ساتھ ہی میرے کان میں ایک سرگوشی ہوئی ، کل رات اپنے بھیا کے کمرےمیں کیا دیکھ رہے تھے ؟ لگتا ہے شہر جا کر بہت جلد جوان ہوگئے ہو ۔۔۔اور میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کیونکہ وہ چاچی کی آواز تھی ۔۔۔۔ میں کچھ کہنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی کی ہونٹ میرے ہونٹ پر ٹک گئے ۔ اور ایک بار تو میرے پسینے ہی چھوٹ گئے ، ان کی قمیض اتری ہوئی تھی اور ان کی گرم نرم چھاتیا ں میرے سینے سے ٹکرائیں ۔۔۔۔
مجھے واقعی میں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ میں چچی کے سامنے بچہ سا ہوںاور وہ مجھے سے کھیل رہیں ہیں۔ ان کا بدن مجھ سے چوڑا اور بھرا بھرا تھا ، اور میں ان کے نیچے دب سا گیا تھا ۔۔میرے ہونٹ چومتے چومتے وہ پھر بولیں ہاں بھئی کل کیا کیا دیکھا تھا اپنے بھیا کے کمرے میں ۔۔۔ ان کی آوازیں تو باہر تک آرہی تھیں ، لگتا ہے بہت مزا آیا تمہیں دیکھ ۔۔۔آج میں تمہیں اصل مزا چکھاتی ہوں ۔۔۔یہ کہ انہوں نے اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر رکھ دی ۔۔ مجھے وہ ساری موویز یاد آرہی تھیں جن میں بڑی عمر کی عورتیں کم عمر لڑکوں سے چدواتی تھیں ۔۔۔۔اب میرے پسینے خشک ہو چکے تھے اور جسم میں گرمی بڑھی رہی تھی ۔۔۔ سنسنی اور ایک کرنٹ پورے بدن میں گردش کر رہا تھا ۔۔۔چاچی کے سرخی مائل بال جہاں جہاں مجھے لگ رہے تھے ایک کرنٹ دوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔ اور میرا ہتھیار ایک انگڑائی لے کر کھڑے ہونے کی تیاری میں تھا ۔۔۔چاچی کا ہاتھ اب تک اس پر نہیں پڑا تھا ، وہ بس میری ٹانگوں پر ہی ہاتھ پھیر رہیں تھی ۔۔۔۔چاچی کے موٹے موٹے بھرے بھرے ممے میرے سینے پر دبے ہوئےتھے ، شاید مجھے اٹھنے سے منع کر رہے تھے ۔۔۔۔ چاچی نے ہونٹ چومتے چومتے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالنے لگیں جو کہ میری بھی خواہش تھی
میں نے ان کی زبان اپنے ہونٹوں سے پکڑنے کی کوشش کی اور چوسنے لگا ۔۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو بھی حرکت دے ڈالوں کہیں چاچی کا بدن برا نہ مان جائے ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا بائیاں ہاتھ بڑھا کر چاچی کی کمر پر رکھ اور دائیاں ہاتھ ان کےنیچے دائیں طرف سے گزار کر ان کی موٹی گانڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ گوشت سے بھرا ہوئے ان کے جسم کا یہ حصہ سب سے زیادہ پر کشش تھا ۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ چاچی کی گانڈ کو دبوچ رہے تھے ، مسل رہے تھے ،۔۔ میں نے ہلکا سازور لگا کر انہیں مکمل اپنے اوپر کر دیا ، بے شک انکا وزن زیادہ تھا مگر میرا ورزشی جسم بھی پوری طرح تیا ر تھا ۔۔۔ میرا ہتھیار پورا تن چکا تھا مگر اب تک ٹانگوں کی سیدھ میں ہی تھا ۔ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان میں چاچی کی ٹانگیں تھیں ، ان کے ممےمیرے سینے پردبے ہوئے تھے اور ان کے نپلز مجھے صاف محسوس ہورہے تھے ۔ میں نے چاچی کی زبان اپنے منہ سے نکالی اور اور اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی ، وہ بھی بڑے مزے سے چوسنے لگیں ۔۔۔۔چاچی کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو مجھے مدہوش کر رہیں تھیں ۔۔۔ ان کی آنکھوں کی چمک مجھے اندھیرے میں کسی بلی کی طرح چمکتی دکھائی دے رہی ہوں جیسے وہ اپنے شکار پر جھپٹنے کو تیار ہوں ۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ چاچی کی گانڈ کو پورے طریقے سے چیک کر چکے تھے اور اب اوپر کمر کی طرف آ گئے تھے ۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ میں ایک ہاتھ ان کے بالوں میں بھی مار رہا تھا جو بار بار میرے چہرے پر گر رہے تھے ۔۔۔اچانک انہوں نے سرگوشی کی کہ پہلے کبھی کیا ہے یا پہلی بارہے ۔۔۔ میں نے ان کی کمر پر اپنی انگلی کو ایک مرتبہ چھوا اور آہستہ سے کہا کہ پہلی بار ہے ۔۔۔چاچی کی مسکراہٹ مجھے صاف محسوس ہو رہی تھیں اور ان کی گرم گرم سانسیں مجھے تیزی سے چارج کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ چاچی تھوڑا اٹھتے ہوئے کہنے لگیں میرے اوپر آ جا میرے راجہ ۔۔۔ میرے لئے اشارہ ہی کافی تھا ۔۔۔کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔میں بھی اب کشتیاں جلا چکا تھا ۔۔۔۔اور میری اندر کی آگ اب خود ہی میری رہنمائی کر رہی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر چاچی کو بیڈ کے درمیان لٹا دیا اور صحیح سے ان کے ان کے ممے دیکھنے لگا ، ممے کیا تھے چھوٹے چھوڑے خربوزے تھے جو ہلکے ہلکے سختی سے ہل رہے تھے ۔ میں نے ایک ہاتھ اپنے ہتھیار پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ان کا ایک خربوزہ تھام لیا۔۔تھوڑی دیر مسلنے کے بعد اپنے منہ اس پر رکھ دیا اور مزے سے چوسنے لگا ۔۔چاچی کی آنکھیں اب بند ہو رہیں اور کھل رہیں ۔۔ لائٹ بند تھی مگر اتنی قربت تھی کہ میں ان کے نقوش صاف دیکھ رہا تھا ۔۔۔چاچی کا دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ممے پر تھے اور وہ بھی نپلز کو مسلز رہیں تھیں ۔۔۔ ان کاہاتھ پورے جڑ سے ممے پر پھرتا ہو ا نپلز تک آتا جیسے دودھ نکالنے کی کوشش کر رہیں ہوں، اور پھر واپس سے ایساہی کرتیں ۔۔۔۔چاچی مستی میں آہیں بھر رہیں تھیں اور ان کی گرم گرم سانسیں مجھ سے ٹکرا رہیں تھیں ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ان کو اندازہ ہو گیا کہ کچھ چیز مسنگ ہے ۔۔۔۔اور پھر چاچی نے پوچھ ہی لیا ۔۔راجہ تیرا ہتھیار کدھر ہے محسوس نہیں ہو رہا ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا چاچی وہ سرپرائز ہے ۔۔۔۔۔تھوڑا ٹہر جاؤ خود ہی سامنے آ جائے گا ۔
مگر ان کی بے چینی اب بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے ممے کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے کر کے ہتھیار کو ٹٹولنے لگیں میں نے دوسرے ہاتھ سے اپنے ہتھیار کو سنمبھالا ہوا تھا چاچی کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکرا یا تو کہنے لگیں چھوڑو تو سہی ، ذرا میں بھی دیکھوں کیسا ہے۔۔۔۔۔۔میں مسکرا دیا تو اور تیزی سے ٹٹولنے لگیں ، میں نے جلدی سے ان کے اک نپلز پر ہلکا سا کاٹا تو ان کی ایک شش نکلی ۔۔۔۔ اور انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔۔اب میں نے اپناہتھیا ر چھوڑا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو اوپر کر ان کو بے تحاشا چومنے لگا ۔۔۔۔چاچی کی کسمساہٹ بڑھ رہیں تھی ۔۔۔ اور آہیں اور سسکیاں بھی اونچی ہوتی جا رہیں تھی ۔۔۔۔۔۔میں اب ان کے دونوں مموں پر ندیدوں کی طرح پل پڑا تھا ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ہلکا کاٹ بھی رہا تھا جس پر ان کی اف نکلتی اور ساتھ ہی ہلکی سی کمر اوپر جھٹکا کھاتیں ۔۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پورا تن چکا تھا اور سامنے والی چوت پر دستک دے رہا تھا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ آج چاچی کی جو حالت ہونے والی ہے وہ انہیں ہمیشہ یادرہے گی ۔۔۔ چاچی کی اب گرمی بڑھ رہی تھی اور وہ نیچے سے اپنی کمر کو جھٹکے مار میرے ہتھیا ر کو آواز دے رہیں تھیں۔۔۔۔اور پھر مجھے ان پر ترس آ ہی گیا ۔۔۔۔۔میں نے آہستہ آہستہ اپنے چہرہ اور زبان پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف آنے لگا ۔۔۔۔ دونوں مموں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ناف تک پہنچا اور وہاں زبان گول گھما تا رہا ۔۔۔چاچی کی کمر اوپر کی طرف مسلسل جھٹکے مار رہی تھی ۔۔۔ اور سسکیا ں آہیں مجھے اور انرجی دے رہیں تھی ۔۔میں بھی دیکھی گئی ساری فلموں کا تجربہ کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔اورپھر میری زبان ایک لکیر بناتی ہوئی ان کی چوت کے اوپر آ کر رک گئی ۔۔۔چاچی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا تھا ، وہ ایک نئے اور اجنبی اموشن سے گزر رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے ہاتھ اب چاچی کے دونوں بازوں کو چھوڑ کر ان کے مموں کو مسل رہے تھے اور زبان چوت کی لکیر کے بالکل اوپر تھی ۔۔۔۔اورچاچی کے دونوں ہاتھ میرے سر پر گھوم رہے تھے ۔۔۔ان کی بھری بھری رانیں بار بار میرے چہرے کو دائیں بائیں ہلا رہیں تھیں ، مگر میں پہلے سے زیاد ہ جوش سے ان کی چوت پر زبان رکھ رہا تھا ۔۔۔ اب میں نےزبان کا سرا ان کی چوت میں داخل کیا اور ہلکا ہلکا آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔ان کی آہیں اور سسکیا ں بلند ہوتی جارہیں ۔۔۔۔۔۔ان کے ہاتھ میرے بال کھینچ رہے تھے۔۔۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چاچی کی چوت نے ہمت ہار دی ایک زبردست آہ کے ساتھ پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ میں اب دوبار اوپر آ چکا تھا ۔۔۔ اور ان کے منہ کوچوم رہا تھا ۔۔۔۔چاچی کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ زیر ہو چکی ہیں ان کی نگاہوں میں حیرانگی بھی تھی۔۔۔۔ شرماہٹ بھی تھی ۔۔۔۔ اور اک پیاس بھی ۔۔۔۔۔۔چاچی اب اٹھ کر بیٹھنے لگی تھیں کہ میں نے انہیں دوبارہ لٹا دیا اور ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔۔۔میرا ہتھیاران کی رانوں کے اوپرہل رہا تھا ۔۔۔چاچی نے اپنا ایک ہاتھ میرے ہتھیا ر کی طرف بڑھایا ۔۔میرے دونوں ہاتھ ان کے مموں پر تھے ۔۔۔۔انہوں نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر کہا کہ راجہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ ۔۔پلیز مجھے پکڑنے دو ۔۔
اور ایک ہی سیکنڈ میں انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ میرے دونوں ہاتھ تو اوپر ہیں ۔۔۔۔۔ اب کی بار ان کے دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لپکے تھے ۔۔۔اور جب انہوں نے ہتھیار تھاما ۔۔۔تو ان کی ایک چیخ نکل چکی تھی ۔۔۔۔وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھیں اورکہنے لگیں یہ کیا ہے راجہ ۔۔۔۔۔۔ میں مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔انہوں نے بار بار میرےلنڈ کو تھاما ۔۔۔۔مگر بے یقینی کی کیفیت میں تھیں ۔۔۔پھر اپنی کلائی لنڈ کے ساتھ لگا کر دیکھنے لگیں ۔۔۔دونوں میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔۔۔نہ موٹائی میں ۔۔اور نہ ہی لمبائی۔۔۔۔۔ چاچی کو گھبراہٹ شروع ہو چکی تھی۔۔۔ اور وہ دونوں ہاتھوں سے اس کولڈ ڈرنک کی ایک لیٹر والی بوتل کی موٹائی جیسے لنڈ کو دونوں ہاتھوں میں تھام رہیں تھیں ، کھینچ رہیں تھیں ۔۔۔اور اوپر کی طرف زور لگار ہیں تھی ۔۔۔۔وہ ایک ہاتھ کو جڑ کی طرف سے رکھتی ،اور دوسرے ہاتھ کواس کے اوپر ، پھر پہلےوالے ہاتھ کو دوبارہ اٹھا کر آگے رکھتی تو آگے ٹوپی بچتی ۔۔۔جسے ٹوپا کہنا ہی ٹھیک تھا ۔۔۔۔چاچی کو ہکلاہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ کہنے لگی راجہ یہ لینا بہت مشکل ہے ، رات کے اس پہر کہیں آواز نہ نکل جائے ۔۔۔میں نےانہیں اپنے اوپر کھینچ لیا اور کہا چاچی فکر نہ کرو ۔۔۔۔میں اپنی جان کوبہت پیار سے کروں گا ۔۔۔۔۔۔چاچی کے کان میں ایک سرگوشی کی کہ پہلے کس پوزیشن میں لو گی ۔۔۔۔ چاچی نے میری آنکھوں میں دیکھا اور راجہ تیری مرضی ہے ، ۔۔۔۔جیسے کرنا ہے ۔۔۔میں تجھ پر قربان ۔۔۔۔۔میں بھی جوش میں آ چکا تھا ۔۔۔قریب سے تیل کی بوتل اٹھائی اور چاچی سے کہا کہ اسے اچھے سے لنڈ پر لگا دے ۔۔۔۔چاچی نے پھرتی دکھائی اور تیزی سے اسے تیل میں لت پت کر دیا ۔۔۔۔میں نے چاچی کے کان پر کاٹا اور کہا سرگوشی کی کہ چاچی گھوڑی بن جاؤ ۔۔۔۔۔گھوڑا تیا ہے ۔۔۔۔چاچی فورا ہی اپنے چاروں ہاتھ پیروں پر آ گئیں۔۔۔۔آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ جب سے میں نے بھابھی کو اس انداز میں چدتے ہوئے دیکھا تھا یہ میرا فیورٹ اسٹائل بن چکا تھا ۔۔۔۔چاچی کے بال کالے تو نہیں تھے مگر سرخی مائل بھی کم نہیں تھے ۔۔۔۔۔ میں نے چاچی کی کمر کوہلکا نیچے کو دباتے ہوئےان کے چہرے کی طرف جھکا ۔۔۔میں ہلکا ہلکا ان کی کمر کو چوم رہا تھا ۔۔۔اور ساتھ ساتھ ہی اپنے ہتھیا ر کو ہلا رہا تھا ۔۔۔جو کہ اپنی زندگی کی پہلی جنگ کھیلنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔چاچی کا چہرہ پیچھے کی طرف مڑا ہوا تھا اور مسلسل میری آنکھوں میں دیکھ رہیں ۔۔۔۔ اور بے شک کہ رہیں تھیں کہ جان خیال رکھنا ۔۔۔۔میں نے اپنے ہتھیار کا ٹوپا دوبارہ سے لبریکیٹ کیا اور اسے چوت کی لائن پر رکھ دیا ۔۔۔چاچی کوئی کنواری نہیں تھی ۔۔۔مگر اپنے بھتیجے کے اس ہتھیار نے ان کے بھی پسینے نکال دیئے تھے ۔۔۔۔میں نے ان کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے ۔۔۔۔ہلکا سے پیچھے کو دباؤ دیتے ہوئے اپنے لنڈ کے ٹوپے کو آگے بڑھانے لگے ۔۔۔۔باوجود میری کوشش کے چاچی کی گانڈ آگے کو کھسک رہیں تھی ۔۔۔میرا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔۔مگر ساتھ ساتھ ہی چاچی بھی آگے ہوتی جا رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے تھوڑا زور لگایا تو لنڈ نیچے کی طرف پھسل گیا ۔۔۔میرے ہاتھ چاچی کی کمر پر تھے تو ۔۔۔چاچی نے خود ہی نیچے سے ہاتھ بڑھا کر لنڈ تھا ما اور دوبار اسے چوت کی لائن پر رکھا اور کہا۔۔۔۔۔راجہ آرام سے آہستہ سے ۔۔۔۔۔۔ میں دوبارہ زور لگانے لگا ۔۔۔۔ مگر لنڈ بار بار نیچے نکل رہا تھا ۔میں نے ایک مرتبہ زیادہ زور لگایا تو چاچی آگے کی طرف لیٹ گئیں۔۔۔آخر چاچی نے خود ہی کہا کہ راجہ میں نیچے آتی ہوں ۔۔ تو اوپر آ جا ۔۔۔میں نے بھی مجبورا پوزیشن بدلی اور۔۔۔۔ چاچی بیڈ پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔۔اور میں ان کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پوزیشن سمبھال چکا تھا ۔۔۔۔ایک مرتبہ پھر چاچی کو چوما ۔۔۔ اور ان کی ٹانگیں تھوڑی سی اٹھا کر اپنا ہتھیار چوت کے اوپر رکھ دیا ۔۔۔چاچی کے دونوں ہاتھ میرے سینے پر گھوم رہے تھے ۔۔۔۔میں آہستہ آہستہ ٹوپا اوپر رکھ کر زور دینے لگا ۔۔۔۔تھوڑا زور لگایا ہی تھا کہ ٹوپا چوت کی دونوں دیواروں کو دائیں بائیں دھکیلتا ہوں اندر داخل ہو گیا ۔۔۔۔چاچی کے منہ سرخ ہو چکا تھا اور ان کے منہ سے نکلے والی آہ اور گرم سانس مجھ اپنے سینے پر محسوس ہوئیں
۔چاچی کی حرکت بالکل بند ہو چکی تھی ۔۔۔بالکل ساکن تھیں وہ اور میرے لن کا ٹوپا انہین اچھے سے محسوس ہو رہاتھا ۔۔۔۔۔۔ ان کا ہاتھ میرے سینے سے ہٹ چکے تھے اور وہ بہت ہی تیزی سے اپنے ممے کھینچ رہیں تھیں ۔۔۔نپلز کو مروڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ان کی آواز شاید بند تھی ۔۔۔۔اور وہ اپنے تمام محسوسات سے میرا ٹوپا محسوس کر رہی تھیں ۔۔میں نے سوچا کہ ان کو ہونٹ چوم کر تسلی دوں ۔۔۔۔۔۔مگر جیسے ہی ہلکا سا آگے بڑھا ۔۔چاچی کی ایک چیخ اور نکلی اور وہ تیزی سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر روکنے لگی تھیں ۔۔۔۔میں رک گیا ۔۔۔۔اور اپنے ہاتھوں سے ان کے دونوں ممے تھام لئے ۔۔۔اور انہیں بھینچنے لگا ۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ان کی چوت کو اوپر ی حصے کو بھی مسلتا جا رہا تھا ۔۔۔۔قریب پانچ منٹ ہوگئے تو چاچی ریلکیس ہو چکی تھی ۔۔۔میں نے اب دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔چاچی کی سانسیں رکی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ان کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں ۔۔۔ ان کی سسکیاں شاید انکے دل میں ہیں گونج رہیں ۔تھی۔۔۔میرا زور بڑھتا جا رہا ہے ۔۔۔ٹوپے کے بعد ایک انچ ڈالنے کے بعد میں رکا تو چاچی نے گہرا سانس ایک آہ کے ساتھ نکالا ۔۔۔۔اف راجہ یہ کیا ہے ۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا مزہ نہیں محسوس کیا ۔۔۔۔ رونا اور ہنسنا بھی ساتھ ہی آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں بس ان کے ممے مسل رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ اپنے دونوں ہاتھ میرے بازووں پر پھیرتے ہوئے ہاتھ تک آ رہی تھی ۔۔۔کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد میں نے دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔جیسے دباؤ بڑھ رہا تھا ۔۔چاچی کے ہاتھوں کو دباؤ بھی میرے بازووں پر بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تقریبا ایک انچ لن اور اندر گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ان کے ممے بھینچنے کے بعد میں نے لن ہلکا سے باہر نکالا اور دوبارہ اندر گھسادیا ۔۔۔چاچی ایک مرتبہ پھر سسک اٹھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اندر باہر کرتا رہا اور چاچی کی آہیں گونجتیں رہیں ۔۔۔۔ اس طرح کرتے ہوئے میں ایک انچ اور گھسا چکا تھا ۔۔۔۔اب ٹوپے سمیت تین انچ لنڈ اندر گھس چکا تھا ۔۔۔میں اسی طرح جگہ بناتا رہا اور اور تھوڑی دیر بعدہی ایک انچ اور اندر جا چکا تھا ۔۔۔ اب بھی آدھے سے زیادہ لنڈ باہر تھا ۔۔۔چاچی نے ہاتھ بڑھا کر میرے لنڈ کو باہر سے تھاما اور ۔۔۔بڑی ہی لجاجت سے کہنےلگی راجہ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔مجھے ان کا یہ انداز دیکھ کر بے اختیار پیار آیا ۔۔۔ میں نے اپنے انگلی اور انگوٹھا کو ان کے ہونٹوں پر پھیرا اور چوم لیا ۔۔۔۔ اب میں اسی طرح ہلکا ہلکا ہلنے لگا ۔۔۔چاچی کی سسکیا ں ابھی بھی گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔ ان کی آہ ایسی تھی کہ میرا دل کر رہا تھا کہ اور گھسا ؤں ۔۔۔مگر پھر ان کا چہرہ دیکھ کر رک جاتا ۔۔۔جس پر پسینہ آیا ہوا ۔۔۔۔میں نے اسی طرح اپنا لن ان کی چوت کے اندر رہنے دیا ۔۔۔اور ان کی سائیڈ پر کروٹ لے لی ۔۔۔اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف کروٹ لی ہوئی اور اور میرا لن ان کی چوت میں ہل رہا تھا ۔۔۔۔ چاچی مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ کل اپنی بھابھی کیسی لگی ۔۔۔۔میں نے کہا بہت ہی خوبصورت تھی۔۔۔۔۔چاچی نے مسکرا کر کہا کہ آخر اپنی ماں پر ہی گئی ہے ۔۔۔میں یہ سن کر مسکرایا اور دوبارہ انہیں چومنے کے لئے آگے بڑھا تو ان کی دوبارہ سے سسکی نکل گئی ۔۔۔۔۔چاچی پھر پوچھنے لگی کہ تیرا بھائی اسے چود رہا تھا یا وہ تیرے بھائی کو ۔۔۔۔۔مجھے یہ بات عجیب لگی ۔۔۔۔۔میں نے ان کو مموں کو بھینچتے ہوئے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہوا ۔۔چاچی نے بھی سسکی لی اور کہا کہ تیرے ابو اور چاچا نے تیرے بھائی کی مرضی کی بغیر اس کی اپنی بیٹی سے شادی کی ۔۔اب تیرا بھائی اسے ٹھیک سے خوش بھی نہیں کرتا ہے ۔۔۔اکثر ہاسٹل میں رہتا ہے ۔۔اس مرتبہ تیرے ساتھ کیسے آ گیا ۔۔۔۔اپنے بھائی کے بارے میں یہ بات سن کر سارا سین میرے سامنے گزر گیا ۔۔بھابھی خود ہیں بھائی سے مزے لینے کی کوشش کر رہی تھیں اور بھیا نے جب گھوڑی بنایا تب بھی مزے دینے کے لئے نہیں بلکہ تکلیف دینے کے لئے چود رہےتھے ۔۔میں سب سمجھ چکا تھا ۔۔میں نے چاچی کو ایک ہلکا سے جھٹکا دیااور کہا کہ میں بھیا سے پوچھوں گا ۔۔۔۔چاچی کی ایک اور آہ نکلی اور کہنے لگی راجہ اب جلدی سے فارغ ہو جاؤ ۔۔۔ صبح ہونے والی ہے ۔۔۔۔۔۔چاچا کہیں نہ اٹھ جائے ۔۔۔۔میں سمجھ گیا اوردوبارہ ان کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔اوراسی انداز میں آہستہ آستہ جھٹکے دینے لگا۔۔۔۔اور اپنا ایک ہاتھ ان کے منہ میں ڈال دیا جسے چاچی مزے سے چوسنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے ان کی چوت کے دانے کومسلنے لگا ۔۔۔چاچی کی آہیں اب ان کے تھوک کے ساتھ میرے ہاتھ کو گیلا کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔میرا بھی ٹائم پورا ہو چکا تھا ۔۔میرے جھٹکے اب تھوڑے تیز ہو رہے تھے ۔۔۔اور ان ؎ پر قیامت کے گذر رہے تھے ۔۔۔۔وہ اپنی دانتوں سے میری انگلیاں چبا رہیں تھیں ۔۔۔اور ان کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوتے گئے ۔۔۔اور پھر یوں لگا کہ پورے جسم کا خوں اکھٹا ہو کر لن کی ٹوپے کی طرف آ رہا ہے ۔۔
میں نے جلدی سے آخری جھٹکا مارااورٹوپا باہر نکالا اور ہاتھ مارنے لگے ۔۔تھوڑے ہی دیر میں ایک فوارہ چھوٹا ۔۔۔۔۔جو چاچی کے دونو ں مموں کو ہلا چکاتھا ۔۔۔۔نہلا چکا تھا ۔۔۔۔چاچی نے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں پر ملنا شروع کردیا ۔۔۔۔میں چاچی پر گر چکا تھا اور ایک مرتبہ پھر طوفانی چوما چاٹی شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔
چاچی اور میں ایک دوسرے کو رگید رہے تھے جیسے کشتی کے میدان میں پہلوان دوسرے کو چت کرنے کی کوشش میں ہو ۔۔ چاچی پوری مجھ میں سمانا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔چاچی کا منہ میرے منہ اور سینے پر پھر رہا تھا اور پورا گیلا کر رہا تھا ۔۔ صبح کے چاربج چکے تھے ۔۔۔چاچی دو مرتبہ فارغ ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔اور پھر اٹھ کہ کہنے لگیں راجہ اب میں چلتی ہوں ۔۔میں بھی تھک چکا تھا ۔۔میں اٹھا تو اچانک ایسے لگا جیسے کہ میرے کمرے کے دروازے سے کوئی ہلا ہے ۔۔۔ہماری لائٹ بند تھی مگر باہر کی لائٹ آن تھی جس کی وجہ سے ہلکاسایہ ہلا تھا ۔۔۔۔چاچی اپنے کپڑے پہننے میں مصروف تھی ۔۔۔۔ اور کپڑے پہننے کے بعد دوبارہ مجھ سے لپٹ گئیں ۔۔اورکہا کہ راجہ یہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا پھر بھی جا رہیں ہوں ۔۔۔۔میں انہیں باہر چھوڑ کر آیا ۔۔اور بیڈ پر لیٹ کر سو گیا ۔۔

میں رات کو سوتے ہوئے بھی عجیب طرح کے خواب دیکھ رہا تھا ۔۔بھابھی میرے آگے بھاگ رہیں تھیں ۔۔اور میں انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اور کبھی میں ان کے آگے بھاگ رہا ہوں اوروہ میرے پیچھے ۔۔۔میں مڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مڑ نہیں پاتا ۔۔اس طرح کے اوٹ پٹانگ خواب دیکھ کر صبح اٹھا تو بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی ۔۔۔تمام گھر والےناشتہ کر چکے تھے ۔۔۔۔۔ میں نہا کر باہر نکلا تو امی میرے کمرے میں آئی ہوئی تھیں اور بڑی فکر مندی سے میراحال چال پوچھ رہیں تھیں ۔۔میں نے بتایا کہ سب خیریت ہے ۔۔بس رات دیر سے نیند آئی ۔۔۔امی نے بتایا کہ تمہارے بھیا کو شہر سے تمہارے ابو کی کال آئی تھی اور وہ جلدی میں وہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔میں بھی کچھ پریشان ہو گیا ۔۔امی سے کہاکہ آپ ناشتہ بھجوائیں ۔۔۔اور ابو کا کال ملا کر بات کرنے لگا ۔۔ابو نے بتایا کہ شہر میں ایک نیا اسکول خرید رہاہوں تو اس کے لئے پیسے چاہئے تھے ۔۔اس لئے پیسوں اور لکھت پڑھت کے لئے تمہارے بھیا کو بلوایا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ ابا اگر میری ضرورت ہو تو بتائیں میں آ جا تا ہوں۔۔۔ابا مسکرا کر کہنے لگے نہیں بیٹا ۔۔۔ تم زرا گاؤں کی دیسی چیزیں دل بھر کر کھا ؤ ۔۔۔کیوں کہ پھر چھٹیوں ختم ہو جائیں گی ۔۔میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ابا جان ۔۔آپ خوش رہیں ۔۔۔۔ فوں بند کر میں رات والے واقعے کی طرف سوچنے لگا ۔۔۔۔جب دروازے کے باہرکوئی سایہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔میں ڈرا کہ کہیں چاچا نہ اٹھے ہوں اور انہوں نے نہ دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔اتنے میں چاچی مسکراتی ہوئی ناشتہ اٹھائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔۔میرا راجہ اٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ چل اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواؤں ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل راجہ کی خواہش تو پوری کی نہیں ہے ۔۔۔چاچی تھوڑی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی کہ راجہ کے لئے جان بھی حاضر ہے مگر تھوڑا آہستہ ہاتھ رکھو ۔۔۔۔۔ میں نے ناشتہ شروع کیا تو چاچی بھی بڑی گہری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ رات واقعی قیامت کی تھی ۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہیں ہوں کہ تیری بیوی کا کیا حال ہو گا ۔۔۔میں نے کہا وہی حال ہو گا جو رات کو آپ کو ہوا تھا ۔۔۔۔چاچی کی باتوں سے نہیں لگ رہا تھا کہ رات چاچا باہر تھے ۔۔۔اگر چاچا باہر ہوتے تو وہ لازما چاچی سے ضرور پوچھتے ۔۔۔۔۔چاچا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھےایسی چھوٹ ہوتی ۔۔۔۔۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی بول اٹھی آج رات چاچا باہر کھیتوں میں رہے گیں تو میں جلد ہی آ جاؤں گی ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا ۔۔۔ناشتے کے بعد میں باہر نکل آیا اور نیچے جا کر ڈائننگ ٹیبل پر چائے پینے لگا ۔۔۔میری دونوں بہنیں مجھ سے بالترتیب ایک ایک سال چھوٹی تھیں ۔۔۔ایک نویں کا امتحان دے رہی تھی اور ایک دسویں کا ۔۔۔۔نیچے گیا تو ان کے قہقہے سن کر ان میں گم ہو گیا ۔۔۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے ان میں جھڑپیں ہوتی رہتیں تھیں جس سے پورے گھر میں رونق رہتی تھی


چاچی اور میں ایک دوسرے کو رگید رہے تھے جیسے کشتی کے میدان میں پہلوان دوسرے کو چت کرنے کی کوشش میں ہو ۔۔ چاچی پوری مجھ میں سمانا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔چاچی کا منہ میرے منہ اور سینے پر پھر رہا تھا اور پورا گیلا کر رہا تھا ۔۔ صبح کے چاربج چکے تھے ۔۔۔چاچی دو مرتبہ فارغ ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔اور پھر اٹھ کہ کہنے لگیں راجہ اب میں چلتی ہوں ۔۔میں بھی تھک چکا تھا ۔۔میں اٹھا تو اچانک ایسے لگا جیسے کہ میرے کمرے کے دروازے سے کوئی ہلا ہے ۔۔۔ہماری لائٹ بند تھی مگر باہر کی لائٹ آن تھی جس کی وجہ سے ہلکاسایہ ہلا تھا ۔۔۔۔چاچی اپنے کپڑے پہننے میں مصروف تھی ۔۔۔۔ اور کپڑے پہننے کے بعد دوبارہ مجھ سے لپٹ گئیں ۔۔اورکہا کہ راجہ یہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا پھر بھی جا رہیں ہوں ۔۔۔۔میں انہیں باہر چھوڑ کر آیا ۔۔اور بیڈ پر لیٹ کر سو گیا ۔۔

میں رات کو سوتے ہوئے بھی عجیب طرح کے خواب دیکھ رہا تھا ۔۔بھابھی میرے آگے بھاگ رہیں تھیں ۔۔اور میں انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اور کبھی میں ان کے آگے بھاگ رہا ہوں اوروہ میرے پیچھے ۔۔۔میں مڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مڑ نہیں پاتا ۔۔اس طرح کے اوٹ پٹانگ خواب دیکھ کر صبح اٹھا تو بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی ۔۔۔تمام گھر والےناشتہ کر چکے تھے ۔۔۔۔۔ میں نہا کر باہر نکلا تو امی میرے کمرے میں آئی ہوئی تھیں اور بڑی فکر مندی سے میراحال چال پوچھ رہیں تھیں ۔۔میں نے بتایا کہ سب خیریت ہے ۔۔بس رات دیر سے نیند آئی ۔۔۔امی نے بتایا کہ تمہارے بھیا کو شہر سے تمہارے ابو کی کال آئی تھی اور وہ جلدی میں وہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔میں بھی کچھ پریشان ہو گیا ۔۔امی سے کہاکہ آپ ناشتہ بھجوائیں ۔۔۔اور ابو کا کال ملا کر بات کرنے لگا ۔۔ابو نے بتایا کہ شہر میں ایک نیا اسکول خرید رہاہوں تو اس کے لئے پیسے چاہئے تھے ۔۔اس لئے پیسوں اور لکھت پڑھت کے لئے تمہارے بھیا کو بلوایا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ ابا اگر میری ضرورت ہو تو بتائیں میں آ جا تا ہوں۔۔۔ابا مسکرا کر کہنے لگے نہیں بیٹا ۔۔۔ تم زرا گاؤں کی دیسی چیزیں دل بھر کر کھا ؤ ۔۔۔کیوں کہ پھر چھٹیوں ختم ہو جائیں گی ۔۔میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ابا جان ۔۔آپ خوش رہیں ۔۔۔۔ فوں بند کر میں رات والے واقعے کی طرف سوچنے لگا ۔۔۔۔جب دروازے کے باہرکوئی سایہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔میں ڈرا کہ کہیں چاچا نہ اٹھے ہوں اور انہوں نے نہ دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔اتنے میں چاچی مسکراتی ہوئی ناشتہ اٹھائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔۔میرا راجہ اٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ چل اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواؤں ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل راجہ کی خواہش تو پوری کی نہیں ہے ۔۔۔چاچی تھوڑی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی کہ راجہ کے لئے جان بھی حاضر ہے مگر تھوڑا آہستہ ہاتھ رکھو ۔۔۔۔۔ میں نے ناشتہ شروع کیا تو چاچی بھی بڑی گہری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ رات واقعی قیامت کی تھی ۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہیں ہوں کہ تیری بیوی کا کیا حال ہو گا ۔۔۔میں نے کہا وہی حال ہو گا جو رات کو آپ کو ہوا تھا ۔۔۔۔چاچی کی باتوں سے نہیں لگ رہا تھا کہ رات چاچا باہر تھے ۔۔۔اگر چاچا باہر ہوتے تو وہ لازما چاچی سے ضرور پوچھتے ۔۔۔۔۔چاچا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھےایسی چھوٹ ہوتی ۔۔۔۔۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی بول اٹھی آج رات چاچا باہر کھیتوں میں رہے گیں تو میں جلد ہی آ جاؤں گی ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا ۔۔۔ناشتے کے بعد میں باہر نکل آیا اور نیچے جا کر ڈائننگ ٹیبل پر چائے پینے لگا ۔۔۔میری دونوں بہنیں مجھ سے بالترتیب ایک ایک سال چھوٹی تھیں ۔۔۔ایک نویں کا امتحان دے رہی تھی اور ایک دسویں کا ۔۔۔۔نیچے گیا تو ان کے قہقہے سن کر ان میں گم ہو گیا ۔۔۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے ان میں جھڑپیں ہوتی رہتیں تھیں جس سے پورے گھر میں رونق رہتی تھی

میں بستر پر جا کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔اور سوچتے سوچتے نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔قریبا دو گھنٹے میں مجھے لگا کہ کوئی میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہا ہے ۔۔۔۔آنکھ کھولی تو چاچی اپنی نائٹی میں دونوں ہاتھوں میں تیل لگائے مالش کر رہیں تھی ۔۔میں اٹھنے لگا تو چاچی کہنی لگی ، لیٹے رہو دلہے راجہ ۔۔۔۔۔آج کے بعد آپ کی مالش میں ہی کیا کروں گی ۔۔۔میں چپ چاپ ان کو دیکھتا رہا ۔۔۔آج چاچی نے نے نائٹ بلب آن کیا ہوا اور اس کی بلیو روشنی میں چاچی کا پورا بدن چاندی کی طرح چمک رہا تھا ۔۔۔چاچی میرے سائیڈ پر بیٹھ کر مالش کر رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے کہا کہ چاچی نائٹی اتار کر اوپر ہی آ جائیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی نے مسکرا کر دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور کہ دلہے راجہ خود ہی ہمیں آزاد کردیں
میں نے بھی دیر نہ کی اور چاچی کی نائٹی اتار دی ۔۔چاچی نے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا ۔۔۔نائٹی اتارتے ہی ان کی دودھ کی تھیلیاں میرے سامنے آن گری ہوئیں ۔۔۔سخت تنی ہوئی ۔۔اور دودھ سے بالکل بھری ہوئی لگی رہی ہوئی تھی ۔۔۔۔میرے منہ میں پانی آ گیا ۔۔۔۔بے اختیار چومنے کا دل ہو ا مگر آج چاچی کا ارادہ مجھے ستانے کا لگ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے ہاتھ لگانے نہیں دیا ۔۔۔کہنے لگیں کہ پہلے دلہے راجہ کی مالش کریں گے اس کے بعد کچھ اور ۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنی انڈر وئیر بھی اتار دی ۔۔۔چاچی میرے دائیں بائیں پاؤں رکھ کر اوپر بیٹھ گئیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔۔ان کے اوپر سے نیچے پھرتے ہوئے ہاتھ مجھے بہت الگ مزہ دے رہے تھے اور ان سب سے بڑھ کر ۔۔۔۔۔۔ایک گرم سی آگ تھی جو ان کےہاتھوں کے اندر سے مجھ میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔اور پھر یہ آگ نیچے اتر کر تھانیدار کو جگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی کے دونوں ہاتھ میرے سینے پر تھے اور ان کے خربوزوں کے خوبصورت کلویج مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ دونوں ممے جب ایک خاص انداز سے اوپر کی طرف اٹھتے تومیرے منہ میں پانی آ جا تا ۔۔۔چاچی بھی دیکھ ہی رہی تھیں اور بار بار اپنے سینے کو ہلکا سا باؤنس کر رہیں تھیں ۔۔۔اور پھر وہیں ہوا جو ہونا تھا۔۔۔تھانیدار نے کھڑے ہوتے ہیں چاچی کو ہلا دیا ۔۔۔سیدھا ان کی چوت پر دستک دی اور وہ بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔ان کی تمام بد تمیزیوں کا جواب دینے والا کھڑا ہو چکا تھا ۔چاچی نے اس کا توڑ سوچا اور میرے اورلیٹ گئیں اور اپنے مموں کو میرے سینے پر دبانے لگیں ۔ان کا خیال تھا کہ میرا تھانیدار نیچے کی طرف نکل جائے گا۔اور ان کی چوت کو ٹچ نہیں ہو گا ۔۔مگر میرا تھانیدار بھی اپنامرضی کا مالک تھا وہ چاچی کی چوت کے ساتھ ہی میرے بد ن کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا اور میں تھوڑی سی حرکت دے کر چاچی کی چوت کے منہ پر ایک حرارت دوڑ ا دیتا تھا ۔۔چاچی نےتنگ آ کر کہا اب الٹے ہو جاؤ پیٹھ پر بھی مالش کر دیتی ہوں ۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔میں الٹا ہو کر لیٹ گیا ۔۔۔تھانیدار کو دوبارہ سونے کا اشارہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ بھابھی اب میری چوتڑوں پر بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھوںسے کمر مل رہیں تھی ۔۔۔وہ آگے کو جھک اپنی گرم سانسیں گردن سے نیچے کی طرف پھینکتی ہوئی آتیں اورساتھ ساتھ ہاتھ بھی پھرتیں ۔۔۔۔۔۔ان کی چوت کی لائن مجھے باقاعدہ اپنے چوتڑ پر محسوس ہو رہیں تھیں ۔۔۔کچھ دیرایسا ہی چلاتا رہا اور پھرچاچی پیٹھ پر بھی جھک گئیں اور اپنے سخت اور نرم گرم مموں سے میرا مساج کرنے لگیں ۔۔۔۔۔یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ کسی عورت نے مجھے اس طرح سے ٹچ کیا تھا ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ چاچی اپنی چوت کا منہ بھی میری چوتڑوں پر رگڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اسی سے ہی ان کی آہیں نکل رہیں ۔۔۔اب میری بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اب آپ لیٹ جائیں میں آپ کی مالش کرتا ہوں ۔۔۔۔چاچی میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں اور کہنے لگیں کہ آؤ دلہے راجہ آپ کی دلہن حاضر ہے ۔۔۔۔۔چاچی بیڈ پر سیدھ لیٹ چکی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے کچھ سوچا اور نیچے جا کر مکھن کا کٹورا لے آیا ۔۔۔چاچی حیران ہو کر دیکھ رہیں تھیں کہ یہ کہا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔آخر تھا تو شہری بابو ۔۔۔کچھ نہ کچھ تو نیا کرنے والا تھا ۔۔۔۔ میں نے مکھن لیا اور سیدھا ان کے ہونٹوں پر رکھ دیا ۔۔ اور ساتھ ہی اپنے ہونٹوں بھی ان کے ہونٹوں پر رکھ دئیے ۔۔چاچی یہ کھیل سمجھ چکی تھیں اور انہوں نے جلدی سے مکھن اندر کرنا چاہا مگر یہ کیا مکھن کے بجائے میرے ہونٹ ان کے ہونٹ میں جا چکے تھے اور مکھن میرے منہ میں تھا۔۔۔۔میں نے چاچی کو آنکھ ماری اور کہا کو دوبارہ ٹرائی کریں ۔۔۔اور دوبارہ مکھن کا ایک ٹکڑا ان کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔اب کی بار وہ ہوشیار تھیں اور نتیجہ ۔۔۔۔۔۔ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں میں دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نےبھی کسر نہ چھوڑی اور باہر کو لگا ہو مکھن کا ایک ایک زرہ چوس لیا ۔۔۔چاچی کے نرم نرم ہونٹ اور مکھن میں کوئی فرق نہیں لگ رہا تھا ۔۔اب کی بار ایک پیس چاچی کے ماتھے پر رکھا اور اسے چاٹنے لگا ۔۔۔نیچے سے چاچی کے ہاتھ جذباتی ہو کر مجھےچھونے لگے ہی تھے کہ میں نے منع کر دیا ۔۔۔یہ کہ فاؤل ہے ۔۔آپ نے بھی مجھے ہاتھ لگانے سے منع کیا تھا ۔۔۔۔چاچی بے بسی سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔اور آہیں بھر رہیں تھیں ۔۔۔ اب میں نے ایک پیس ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور ان کا چہرہ تھوڑا سا نیچے جھکا دیا۔۔۔۔مکھن ان کے جسم کی گرم سی پگھلتا ہوں ایک لکیر بناتا ہوا ان کی دودھ کی تھیلیوں کے درمیان جا رکا ۔۔۔بس پھر کیا تھا میں نے بھی اپنی زبان سے مکھن کا تعاقب کیا اور تیزی سے جا لیا اس کو ۔۔۔چاچی کی گرم گرم سسکیا ں شروع ہو چکی تھیں ۔۔۔ان کی ٹانگیں بار بار بھنچ رہیں تھی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔مگر مجھے ہاتھ لگانے کی آزادی انہیں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلا ٹکڑا میں نے ان کے ایک ممے پر رکھا
اور پھر زبان اور ہونٹوں کی مدد سے چوسنے اورچاٹنے لگا ۔۔۔چاچی کے ممے بار بار میرے منہ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔مگر اتنا آسان نہیں تھا ۔۔۔میں بھی اپنے ہونٹوں اورچہرے کی مدد سے ان کے ممے کو نیچے سے اوپر کی طرف اٹھا تا ۔۔یہاں تک کہ وہ بالکل اوپر جا کران کے کندھے کے قریب پہنچ جاتے اور پھر ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوئے ایک زبردست سی چکی کاٹتا اور چاچی کے منہ سے بے اختیار سسس نکلتا ۔۔۔۔چاچی کی زبان آزاد تھی اور وہ اس کا بہترین استعمال کررہیں تھیں ۔۔۔ہائے دلہے راجہ ۔۔۔۔۔اف دلہے راجہ ۔۔۔۔۔۔اف میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔ہائے اتنا مزہ ۔۔۔۔میں نے دوسرے ہاتھ میں مکھن لیا اور ان کے دوسرے ممے پر ملنا شروع کر دیا ۔۔۔۔شروع میں وائٹ رنگ دینے کا بعد اب مکھن آہتہ سے پگھل رہا تھا کہ میں بائیں ہاتھ اور منہ کی مدد سے اس پر پل پڑا ۔۔۔وہیں انداز تھا ۔۔نیچے سے ممے کو پکڑ کر اوپر تک لے کے جانا کہ چاچی بھی اس دیکھ لے او ر پھر چاچی کو دیکھتے اور زور سے چوسنا کہ چاچی کی آہیں نکلنا شروع ہو جائیں ۔۔۔۔۔ اس طرح میرے سیدھا ہاتھ ان کے سیدھے ممے کو بھنبور رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کی گولائیوں کو ناپ رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کے دودھ کو بے دردی سے مسل رہا تھا۔۔۔۔۔چاچی اب بری طرح سے مست ہو چکی تھیں ۔۔۔۔ان کی ٹانگیں بھی بار بار میرے گرد لپٹتی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے چھاتیوں سے نیچے کا سفر شروع کیا اور مکھن کا ایک پیس ان کے پیٹ پر رکھا اور پوری فرمانبرداری سے ایک ایک زرہ چاٹ لیا ۔۔۔جیسے جیسے میں نیچے آ رہا تھا ۔۔چاچی کی گرماہٹ بڑھ رھی تھی اور ان کی ٹانگیں حرکت بڑھا رہیں تھیں ۔۔۔میں اب ان کی مخملی چوت پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔اور ایک مکھن کا ٹکڑا اوپر رکھ کی چاچی کی طرف دیکھا ۔۔۔وہ مجھے ہی تک رہیں رہیں ۔۔۔۔ان کو آنے والا مزہ مجھے صاف ان کی آنکھوں میں دکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے ہونٹ ان کی چوت پر رکھ دئے ۔۔چاچی ایک دم تڑپ اٹھیں ۔۔آہ راجہ ۔۔۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔۔میں نے بھی چاٹنا شروع کیا اور پوری چوت اپنے ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔چاچی کی سسکاریا ں اب بڑھتی جا رہیں تھی ۔۔۔۔میں نےمکھن کا ایک پیس اپنی زبان پر رکھا اور زبان ان کی چوت میں داخل کردی ۔۔۔۔چاچی کا دونوں ہاتھ میرے سر پر آئے اور انہوں نے مجھے اپنی چوت پر دبا دیا۔۔۔میں بھی بڑے سلیقے سے اپنی زبان ان کی چوت کے اند ر باہر کر رہا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھ میرے چاچی کی ہاتھوں میں تھے اور وہ باقاعدہ اس پر زور لگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور ۔۔۔۔دائیں اور بائیں سے ان کے گول گول چوتڑ تھام لیے ۔۔۔میں بتا چکا تھا کہ چاچی کا سب سے پرکشش حصہ ان کے چوتڑ ہی تھے ۔۔۔گول گول ۔۔موٹے موٹے اور باہر کی طرف ابھرے ہوئے ۔۔۔۔میرے ہاتھ مکھن سے بھرے تو تھے ہیں ۔۔۔۔میں نے ان کو چوتڑوں کو تیزی سے مسلنا اور بھنبھورنا شروع کر دیا ۔۔۔اب وہ ڈبل مزے میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ان کی چوت پر میرا منہ اپنی من مانیا ں کر رہاتھا اور ان کے گانڈ میرے ہاتھوں میں کسک رہیں تھی ۔۔۔جبکہ ان کے ممے انہیں کے ہاتھو ں میں مسلے جا رہے تھے ۔۔۔میری زبان کی حرکت جاری تھی۔۔۔۔کہ چاچی کی ایک دم چیخ نکلی اور انہوں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ میں واپس اوپرآ کر ان کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔۔۔ان کو کانو ں کو چوسنے لگا ۔۔۔اور اپنے ہاتھوں کو ان کی چھاتیوں کو مسلنے لگا۔۔۔۔ چھاتیاں بالکل مکھن کے آئل میں بھیگی ہوئیں تھیں اور چاچی خود بھی انہیں چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر ایسا نہ ہو پاتا ۔۔۔۔چاچی اب میرے اوپر آنے کا ارادہ باندھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پوری طرح سے ہوشیار ہو چکا تھا ۔۔۔چاچی نے بھی میری نقل کی اور مکھن لے کر میرے لن پر مل دئیے ۔۔۔۔ اور پھر اسے منہ میں لینے کی کوشش کرنےلگی مگر۔۔۔۔۔۔ وہ منہ میں لے لیتی تو میں کہاں کا راجہ تھا ۔۔۔۔۔وہ پوری کوشش کے باوجود صرف ٹوپی ہی اندر لے سکیں ۔۔۔اور اس پر ان کا پورا منہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں بے بسی دکھ رہیں تھی
۔۔۔وہ اس پر ہی اپنی زبان ملنے لگیں ۔۔۔۔۔اور باہر نکال کر چاروں طرف سے قلفی کی طرح چاٹنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اب کی بار انہیں کیا سوجھی ۔۔۔دوبارہ سے ناپ لینا کا سوچا ۔۔۔مگر حیرت کی بات تھی کہ میرا ہتھیا ر کل کی نسبت آج زیادہ لمبا لگ رہا تھا ۔۔۔اور موٹا بھی ۔۔۔چاچی دوبارہ سے حیرانگی میں گم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔چاچی دونوں ہاتھوں سے اسے قابو میں کرنے لگی ہوئی تھیں ۔۔۔مگر ہتھیار تھا کہ سنسناتا ہوا یک سانپ ۔۔۔۔۔چاچی نے قریب رکھا ہوا ایک شیشے کا گلاس اٹھا یا اور اس کو لن پرچڑھانے لگی تو بے مشکل لن پر آدھا بھی نہیں آ پایا تھا ۔۔۔۔صرف ٹوپی اور ایک ڈیڑھ انچ گلاس میں کے اندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب دوبارہ سے رونے والی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کا منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔آج تو چاچا بھی نہیں تھے ۔۔۔۔رہیں بھابھی تو میں چاہتا تھا کہ وہ بھی میری آواز سن لیں ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اچھی طرح مکھن مل لیں لن پر ۔۔۔۔۔چاچی نے ایسا ہی کیا اور پھرمیں نے انہیں گھوڑی بنا دیا ۔۔۔ ان کے سرخی مائل بال ان کی کمر پر آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے بال دائیں بائیں کر دئیے اور ان پر جھکتے ہوئے ان کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئے ۔۔۔۔اب چاچی کے آگے جانے کی امید کم تھی ۔۔۔۔کل رات تین انچ تک تو جاچکا تھا ۔۔۔آج بس اس سے آگے کوشش کرنی تھی ۔۔۔۔۔میں نے مکھن کا ایک بڑا سا ٹکڑا لیا اور ان کی چوت میں بھرنے لگا ۔۔۔وہ آہیں بھرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔مگر منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔چاچی بار بار عجیب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ ان کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سےلنڈ کا ٹوپا ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔۔چاچی اب بھی اداس لگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔بس یہی کہ رہی تھیں ۔۔۔۔دلہے راجہ ۔۔۔۔آرام سے کرنا ۔۔۔۔جلد بازی نہ کرنا ۔۔۔۔ابھی آدھی رات پڑی ہے ۔۔۔جلدی نہ کرنا ۔۔۔میں تمہاری ہی ہوں ۔۔۔۔میں بھی انہیں تسلی دے رہا تھا ۔۔۔میں نے لن کا ٹوپا ان کی چوت کی لائن میں پھنسانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہی پچھلی رات والا ہی سین ۔جانے سے انکار ۔۔۔مجھے بھی اب جلدی ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے چوت کی لائن پر رکھتے ہوئے اک ہلکا سے جھٹکا دیا ۔۔۔۔لن کا ٹوپا تو پورا کا پورا سلپ ہو گیا اور چاچی آگے کی طرف گر گئیں اور ۔۔۔۔۔۔انہیں اندازہ ہوا تھا کہ میں نے جھٹکا مارنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔وہ بے اختیار رونے لگ گئی ۔۔۔۔کہنے لگی کہ تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ۔۔میں نے جلد بازی سے منع کیا تھا ۔۔۔۔۔میری چوت پھٹ جائے گی ۔۔۔۔میں نے انہیں کہا کہ رات کو یہاں تک تو لے لیا تھا آپ نے اس لیے میں یہ کیا ۔۔۔اور پھران کو اوپر ہی لیٹ گیا ۔۔۔ان کے گرم گرم چوتڑ مجھ اور بھی گرما رہے تھے ۔۔۔میں ان کی کمر کو چومنے لگا ۔۔۔۔۔اور اسی طرح اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنا لن ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔اب پوری پوزیشن درست تھی ۔۔۔۔۔۔میں پچھلی طرف سے اچھا خاصا دور تھا ان سے ۔۔میرا صرف ٹوپا ہی کی چوت کو ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے آرام آرام سے مستقل زور لگانا شروع کیا ۔۔۔۔چاچی کی۔۔۔آئی ۔۔۔آئی ۔۔افف ۔افف کی آوازیں نکل رہیں تھیں ۔۔۔راجہ آرام سے۔۔۔۔راجہ آرام سے ۔۔۔مکھن چاچی کی چوت کو نرم اور ملائم کر چکا تھا ۔۔۔لن کا ٹوپا اندر داخل ہو چکا تھا ۔اور اب چاچی کی گرما گرم آہیں پورا کمرہ گرم کر رہیں تھیں 
۔۔میں نے آہستگی سے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔لن اتنا ٹائٹ تھا کہ آگے دھکیلتے ہوئے چاچی بھی تھوڑا سے آگے کھسک رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور ان کی آوازیں ۔۔۔۔۔افف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔۔افف ۔۔۔آہ ۔۔آہ میں مر گئی۔۔۔راجہ دھیان سے ۔۔۔ میں تین انچ تک اندر گھسا چکا تھا ۔۔۔۔چاچی بار بار دونوں ہاتھ پیچھے کیطرف کر کے اپنے چوتڑوں کو کھولنے کی کوشش کررہیں تھیں ۔۔۔شاید کوئ آسانی ہو جائے ۔۔۔مگریہاں درد تھا ۔۔۔۔۔۔کسک تھی ۔۔۔تڑپ تھی ۔۔۔۔۔۔اور ان سب کے درمیان سے ابھرتا ہوا مزا تھا ۔۔۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی مشین کی اندر بند ہے اور پوری طرح سے جکڑا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس طرح تین انچ کو ہی آگے پیچھے دھکا دیاتا ۔۔۔۔۔لن کسی پسٹن کی طرح اندر گھستا اور وہ اس کی رگڑ کی عجیب سی آواز۔۔۔اور اوپر سے چاچی کی ہائے میں مر گئی کی آواز ۔۔۔۔۔۔میں نے اب آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اورایک انچ اور آگے کی طرف کی گھسایا ۔۔۔چاچی کی دوبارہ سسکیا ں شروع تھیں ۔۔۔۔۔ان کے بس میں ہوتا تو میرے نیچے سے نکل جاتی ۔۔۔۔مگر یہ بھی مشکل تھا۔۔۔۔۔۔ میں دس منٹ تک پھر آگے پیچھے ہلاتا رہا ۔۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ تھانیدار نے اپنی جگہ بنا لی ہے ۔۔اور ایک انچ کا دھکا اور لگا یا ۔۔۔۔۔۔چاچی نے ایک مرتبہ پھر آگے کو زور لگایا اور نکلنے کی کوشش کی مگر یہ ناممکن تھا ۔۔۔چاچی ایک مرتبہ ہاتھ سے نکلتی تو دوبارہ بہت مشکل سے تیار ہوتیں ۔۔۔۔میں نے صرف ٹوپا اندر رکھا اور باقی لن نکال کر ایک مرتبہ پھر جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اور چاچی کی چیخ گونج اٹھی۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔ہائے مجھے بچاؤ۔۔۔میں نے جلدی سےآگے ہو کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور ان کے کانوں کو چوسنے لگا۔۔۔بلاشبہ یہ آواز بھابھی کے کمرےمیں جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔میں چاچی کے سر کو کو چومنے لگا ۔۔۔اور تسلی دی کہ بس تھوڑا ہی رہ گیاہے ۔۔پھر مزہ ہی مزہ ہے ۔۔۔۔۔حالانکہ ابھی تک صرف پانچ انچ ہی اندر تھا ۔۔۔اور آدھے سے کچھ زیادہ باہر تھا۔۔۔۔۔میں اسی پانچ انچ کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آگے پیچھے کرتا رہا ۔۔۔۔چاچی اب مطمئن ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ان کہ چہرے سے ہاتھ ہٹا دیا ۔۔۔۔۔ان کا چہرہ پسینے میں بھگویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور درد کی شدت ان کے چہرے سے ظاہر تھیں ۔۔۔۔۔۔میں پیچھے کو ہٹ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا ۔۔۔۔اور آرام سے آگے پیچھے کو لن ہلا رہا تھا ۔۔۔۔چاچی کی سسکیوں میں اب مزے کا تاثر تھا ۔۔۔۔چاچی پیچھے دیکھتی اور ہلکے سا اٹھ کر اپنے دونوں مموں مسلتی اور پھر آگے لیٹ جاتی ۔

راجہ آج تو تونے مار ہی ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔اتنا بھی خیال نہیں کرتا میرا ۔۔۔۔میں چاچی پر جھک گیا اوران کو بے اختیار چومنے لگا ۔۔۔۔۔۔
چاچی اب اس پوزیشن سے تھک چکی تھیں ۔۔۔اور میرے لن کی سواری کرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔میں بیڈ پرتکیہ رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔اور چاچی کو اوپر آنے کا کہا ۔۔۔۔چاچی نے دوبارہ سے مکھن لےکر تھانیدار کو نہلا دیا ۔۔۔اور اپنی چوت میں بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔اور میری طرف منہ کر ٹانگیں دونوں طرف رکھ دیں ۔۔۔چاچی گھٹنے کے بل بیٹھ نہیں پارہیں ۔۔۔کیونکہ میرا لن ان کی چوت کے اندرآدھا داخل ہو جاتا تھا ۔۔۔۔اور پھر ہلنا جلنا ان کےلئے ناممکن تھا ۔۔۔۔۔خیر وہ ٹانگوں کے بل بیٹھ کر لن کے ٹوپے کو اوپر چوت رکھ کر زور دینے لگیں ۔۔۔۔اسی اثنا ء میں کمرے کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔بھابھی کا سایہ وہاں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور وہ اپنی ماں کو اپنے دیور سے چدتے ہوئے یقینا دیکھ رہیں ہو گی ۔۔۔۔۔چاچی کی آخری ہائے میں مر گئی کی آواز نے نہ صرف بھابھی کو اٹھایا ۔۔۔۔۔۔بلکہ میرے دروازے تک بھی پہنچا دیا ۔۔۔۔۔میں نے دروازے سے نظر اٹھا ئی تو عجب نظارہ تھا ۔۔۔چاچی ٹوپا اندر لے چکیں تھی ۔۔۔۔ ان کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے اپنے پورے غرور سے تنے ہوئے اور سر اٹھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور مجھے تھامنے کی دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ چاچی ابھی مجھ سے فاصلے پر تھی ۔۔۔جب تک وہ آدھ لن نہیں لیتی میں ان کے ممے نہیں تھام سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور چاچی کا چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔سرخی سے بھرا ہوا ۔۔۔۔آنکھیں شرابیں ۔۔۔۔۔اور دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو کو مسلتی ہوئی ۔۔۔۔۔اپنے دانتوں سے اپنے ہونٹوں کو کاٹتی ہوئیں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔اففف کی آوازیں نکالتی ہوئیں ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چوتڑوں کو تھام لیا اور مسلنے لگا اور آہستہ آہستہ نیچے لانے لگا ۔۔۔۔چاچی کا چہرہ دوبارہ سے پسینے چھوڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ان کی آہیں اور سسکیاں بڑھی رہی تھی۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔راجہ ۔۔۔۔کتنا بڑا ہے تیرا ہتھیار ۔۔۔۔۔۔۔میں مرگئی راجہ ۔۔۔۔۔ہائے راجہ ۔۔۔۔میں ان کے چوتڑوں کو مسلسل بھینچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب آدھے لنڈ اپنی چوت میں لے چکی تھین۔۔۔اور ان کی حرکت بند ۔۔۔۔آنکھیں باہر تھیں ۔۔۔اور بس ساکن حالت میں تھیں ۔۔۔۔۔۔اٹھنے اور دوبارہ بیٹھنے کی ہمت اب ان میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ 

میں نے انہیں اشارہ کیا کہ میرے اوپر آ جائیں ۔۔۔۔۔وہ بڑی احتیاط سے لن کو نیچے سے پکڑتی ہوئی آرام سے آگے آتی گئیں ۔۔۔ اور اپنے ممے میرے سینے پر رکھتے ہوئے ڈھیر ہو گئیں ۔۔۔۔۔میں نےبھی ان کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا اور نیچے سے ہلکا ہلنا بھی شروع کردیا ۔۔۔ساتھ اپنے ہاتھوں سے چاچی کی گول گول ڈبل روٹیوں کو بھی مسل رہا تھا ۔۔۔چاچی اب یہ تھری ایکشن برداشت نہیں کر پار ہیں تھیں ۔۔۔۔وہ کبھی ہنستی ۔۔۔کبھی چیخ پڑتی تھیں ۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔افف ۔۔۔۔۔ چاچی اب میرے سر کو چوم رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے ہونٹ چوم رہیں تھیں اور میں بھی جوابی کاروائی بخوبی کر رہا تھا ۔۔۔اچانک چاچی نے کہ کہ میں چھوٹنے والی ہوں ۔۔۔تھوڑی رفتار بڑھا دیا ۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔میرا راکٹ ایک دم بوسٹ مار گیا ۔۔۔اور چاچی کی چیخیں پورے فرسٹ فلور پر گونجنے لگی ۔۔۔ہاے میں مرگئی ۔۔۔۔۔اففف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔راجہ میں گئی ۔۔۔۔۔۔میرا پسٹن اپنے آدھے سائز کے مطابق پورا کام دکھار ہا تھا ۔۔۔۔۔چاچی کی درد بھری چیخوں نے یقینا اس کی بیٹی کو بھی گیلا کر دیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ چاچی کی سسکیاں بڑھتی جارہی تھیں اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے چاچی فارغ ہوئیں اور ان کا پانی میں لن پر گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔اور وہ مجھ پر گرتی چلی گئیں ۔۔۔میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔مگر چاچی اب مجھے مزید نہیں جھیل پا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے ہتھیار کو تھام لیا ۔۔۔۔۔اور تیزی سے ہاتھ اوپر نیچے کرنے لگیں ۔۔۔۔۔پانچ منٹ میں ہی میں بھی فارغ ہونے والے تھا ۔۔۔چاچی کو میں نے نہیں بتایا ۔۔۔مگر بے چینی سے انہیں اندازہ ہورہا تھا ۔۔۔۔اور پھر وہی ہوا ایک فوارہ نکلا اور ان کے پورے منہ اور چھاتیوں کو بھگونے لگا۔۔۔۔چاچی نے ایک دم گہرا سانس لیا اور شرارتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی انہیں اپنے اوپر گرا لیا ۔۔۔۔اور ان کے ہونٹوں کو رس پینے لگا ۔۔۔۔۔چاچی گھبرا گئی کہ۔۔۔۔راجہ دوبارہ کرنا ہے کیا ۔۔۔۔۔میں مسکرایا اور کہا نہیں بس آج کے لئے اتنا کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی کے بڑے بڑے ممے پورے میری منی سے بھیگے ہوئے تھے 
۔۔میری منی بھی عام لوگوںسے بہت زیادہ نکلتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب دوبارہ سے ہم بیڈ پر ایک دوسرے کیطرف منہ کر لیٹ گئے ۔۔۔ٹائم وہی تھا رات کے چار بج رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی میرے منہ اور چہرے کو چوم رہی تھیں ۔۔۔۔ہمارے درمیاں ایک عجیب سا رشتہ قائم ہو چکا تھا ۔۔۔اعتبار کا ۔۔۔۔محبت کا ۔۔۔۔۔احساس کا ۔۔۔اور ایک دوسرے پر مکمل بھروسے کا ۔۔۔ میں چاچی سے بھابھی کے بارے بات کرنا چاہ رہاتھا ۔۔۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔چاچی نے کہا کہ کہو ۔۔۔۔میں نے کہاکہ آج جب آپ چیخیں تو بھابھی بھی آواز سن کر دروازے پر آگئیں تھیں ۔۔۔اور کافی دیر تک رکیں رہیں تھیں۔۔۔۔۔چاچی کچھ دیر چپ رہیں اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔راجہ ایک بات بتاوں! میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میری بیٹی آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔میری آواز سن کر ۔۔۔۔اور ایک بات اور ۔۔۔جب تمہارے چاچا کبھی کبھار مجھے چودتے تھے ۔۔۔تو بھی یہ آواز سن کر دروازے پر آ جاتی تھی ۔۔۔۔۔اس کا شوہر تو اسے بیوی مانتا ہی نہیں ۔۔۔اور یہ یہی حرکت کر کے خود کو سکون پہنچا تی ہے ۔۔۔یہ سن کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا پلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی قسط میں بھابھی کی طرف سے کہانی شروع ہوگی ۔۔۔۔۔۔

2 comments:

  1. ایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03005755442

    ReplyDelete
  2. Ager koi girl ya aunty mujh se apni felling share karna chahti hai.ya
    Good Friendship Love and Romantic Chat Phone sex Ya
    Real sex karna chahti hai to contact kar sakti hai 0306_5864795

    ReplyDelete